WHY ARE WOMEN OPPRESSED ?

Saturday, 28 December 2013
اکیسویں صدی میں بھی عورت مظلوم کیوں؟

ایک وقت تھا جب لوگ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو اپنا مقدر سمجھ لیتے تھے تعلیم اور شعور نہ ہونے کے برابر تھا۔ تھانہ کلچر کو خوف کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لوگوں میں قانون کو سمجھنے کی آگہی نہ تھی جیسے جیسے وقت گزرتا گیا تعلیم عام ہونے اور ذرائع ابلاغ میں خاطر خواہ اضافہ ہونے سے انصاف اور ناانصافی کے پیمانے نظر آنے لگے۔ موجودہ دور میں میڈیا نے لوگوں کے اندر جینے کا شعور اجاگر کیا تو عوام کی نظر وں کے آگے سے پردے اٹھتے گئے ، آج دنیا کا ہر شہری اپنے حقوق سے واقف ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود بھی آج کی عورت ظلم و ناانصافی کا شکار ہو رہی ہے۔ روز بروز نئے نئے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ساڑھے چودہ سو سال قبل کی عورت اور موجودہ دور کی عورت کے حالات زندگی ایک جیسے ہی ہیں۔ زمانے کی ترقی نے خواتین کی زندگی میں وہ انقلاب با پا نہ کیا جو کہ ہونا چاہیے تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی ورکنگ سے آٹے میں نمک برابر خواتین کو ان کے جائز حقوق ملے ضرور ہیں مگر اس سے کیا ہوتا ہے جب تک عورت میں اپنے حقوق کی آگہی پیدا نہیں ہو سکتی وہ اپنی حیثیت کو کیسے منوا سکتی ہے۔ ہم قانون کی بات کرتے ہیں دنیا کے ہر قانون میں مرد اور عورت کو برابر کا درجہ دیا گیا ہے مگر عورت کو اس قانون کا علم کہا ں ہے ۔ قانون تو بند کتابوں کی صورت میں انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی الماریوں میں پڑا ہوا ہے۔ جب تک یہ ان کتابوں سے نکل کر خواتین کے رو برو نہیں آجاتا وہ کیسے اپنا دفاع کر سکتی ہیں۔ بہت سارے واقعات میں عورتیں قانونی تقاضوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ا پنے حقوق کی پاسداری نہیں کر پاتیں۔ دوسرا مردوں کے اس معاشرے میں صنف مخالف کی کون سنتا ہے اور پھر ہماری روایات اور رسم و رواج نے بھی عورت کو مظلوم بنا دیا ہے حالانکہ دیکھا جائے تو آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل محمد ﷺ نے بڑی وضاحت سے خواتین کے لیے ضابطہ حیات اور قوانین وضع کر دیئے تھے۔ عورت کو چار معتبر رشتے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی صورت میں بنا کر خواتین کے جملہ حقوق کو محفوظ کر دیا گیا جبکہ ان چار رشتوں کی گنجائش کو ختم کر دینے کے بعد معاشرے کو پاکیزہ اور صاف ستھرا بنا کر پیش کر دیا مگر موجودہ دور میں بھی عورت کا احتصال کیا جارہا ہے ۔ بہن کے تقدس کو بھر ے بازار میں نیلام کیاجارہا ہے ۔ اس کی مرضی کے بغیر اس کی شادی کر دی جاتی ہے۔ کبھی اس کی عمر سے بڑے بوڑھے شخص کو بیاہ دیاجاتا ہے تو کبھی قرآن پاک سے شادی کے غیر شرعی اور غیر قانونی عمل سے گزارا جاتا ہے ۔ یہی حالات بیٹیوں کے ساتھ بھی دیکھنے میں آئے ہیں بعض ایسے علاقے ہیں جہاں باقاعدہ بیٹیوں کو فروخت کیاجاتا ہے ۔ کیا یہ عورت کے ساتھ ظلم و ناانصافی نہیں ہے۔ کیا ہم اتنے سخت دل ہو چکے ہیں کہ ا پنے خون کے رشتوں کا سودا کر دیتے ہیں یہ کیسے رسم و رواج ہیں جنہیں ہم نے خود ساختہ ضابطہ حیات بنا لیا ہے ۔ کیا بحیثیت انسان ہمیں زیب دیتا ہے کہ ہم محمد ﷺ کی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے رواج کو فروغ دیں ۔ آپ روز مرہ زندگی کامشاہدہ کریں تو ایسے ایسے واقعات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں جن پر انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ۔اس ملک کو حاصل کرنے میں خواتین کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ تحریک آزادی میں بھر پور حصہ لے کر اس سرزمین پاک کو آزاد کروایا ہے مگر آزادی کے بعد خواتین کے ساتھ ہمیشہ ناانصافی کیوں برتی جاتی رہی ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر والدین کیوں غمزدہ ہو جاتے ہیں اور بیٹے اور بیٹی میں امتیازی سلوک کیوں رکھاجاتا ہے۔ عورتوں کے ساتھ ناانصافی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم خود بہن بیٹی والے ہیں کسی کی بہن بیٹی کی طرف نظر اٹھانے سے پہلے ہمیں یہ یاد نہیں رہتا کہ ہمارے گھر کی طرف بھی کسی کی نظر اٹھ سکتی ہے۔ موجودہ دور میں میڈیا نے بھر پور ترقی کی ہے مگر خواتین کو پرموٹ کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ پاکستان کی آزادی کے 65سال گزرنے کے باوجود بھی عورت وہیں پر کھڑی ہے ۔ اعلی تعلیم یافتہ افراد بھی عورت کو تنگ نظری سے دیکھتے ہیں اس کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک رکھنا کسی مہذب معاشرے کی روایات نہیں ہو سکتا۔ ہم کیوں نہیں جہالت سے نکل پائے ۔ اکیسویں صدی کو ترقی یافتہ صدی کا نام دیا گیا ہے مگر اس صدی میں بھی عورت مظلوم کیوں؟؟؟۔ یہ سوچنے کا مقام ہے ۔ دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس معاشرتی مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اور عورت کو صحیح معنوں میں معاشرے کا حصہ سمجھتے ہوئے اس کو اس کے جائز حقوق دلوانے میں مدد کریں اور معاشرے کوخوبصورتی سے سنوارنے کی ذمہ داری علمائے اکرام ، اساتذہ اکرام اور میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔ یاد رکھیں جب تک ہمارا معاشرہ گندی سوچوں سے باہر نہیں آئے گا تب تک عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عورت کو وہی مقام اور حقوق عطا کریں جو ہمارے پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات تھیں۔ تو آئیے آج عہد کریں کہ ہم عورت کو بھی معاشرے کا ایک باوقار حصہ بنائیں گے۔




0 comments:

Post a Comment

VISITORS

Flag Counter

Followers

Powered by Blogger.
 

Browse