بھوک اور افلاس ہمیشہ سوچوں کا رُخ موڑتی ہے۔
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے آج تک عوام جمہوریت و آمریت کا سامنا کرتے کرتے ادھ موئی ہو چکی ہے ہر آنے والی حکومت عوام کو سبز باغ دکھا کر ووٹ لے لیتی ہے مگر عوام کو ریلیف دینا تو دور کی بات ہے انہیں دلاسہ بھی دینا گوارہ نہیں کیاجاتا۔ ہر نیا دن مہنگائی کے گراف کو اوپر سے اوپر لے کر جا رہا ہے عام ضروریات زندگی کی اشیاء دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومت عوام کے لیے سالانہ بجٹ پیش کرتی ہے مگر اس میں بھی تبدیلی آ چکی ہے جس بجٹ کو پورے سال کے لیے لاگو ہونا چاہیے وہ اب دو ماہ کے لیے رہ گیا ہے۔ ہر دو ماہ کے بعد قیمتوں میں اضافہ حکومتی پالیسی کا کھلے عام مذاق بن چکا ہے۔ مزدور آدمی اب سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ وہ محنت چھوڑ کر ڈاکو لٹیرا بن جاہے ۔ عوام کو جو اعتماد جمہوری حکومت پر تھا وہ بھی اب ختم ہو چکا ہے اب تو ہر آدمی اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ریکارڈ مہنگائی نے ملکی کرنسی کی قیمت کو ڈاؤن کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اور عوام کے درمیان ایک خلیج پیدا ک
ر دی ہے یہ روز بروز بڑھتے ہوئے معاشرتی جرائم اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں ملک کا طبقہ فکریہ سوچ رہا ہے کہ جس معاشر ے کی روایات تبدیل کرنی ہوں اس معاشرے میں بھوک کو رائج کر دیاجائے بھوک و افلاس ہمیشہ سوچوں کا رخ موڑتی ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی سوچوں کو کرپشن ، فراڈ اور دیگر جرائم کی طرف موڑ دیا ہے ۔پچھلے 65سالوں کا تجزیہ کیاجائے تو اندازہ ہو گاکہ سابقہ جنرل پرویز مشرف حکومت سے لیکر آج تک کے چند برسوں میں فراڈ ، دھوکہ دہی ، راہ زنی ، ڈکیتی کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عام آدمی کی سوچ میں کتنی تبدیلی آئی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ایک آدمی کی کمائی پر پورا گھرانہ پل رہا تھا مگر آج گھر کے سب افراد کمار رہے ہیں لیکن اخراجات پورے تک نہیں ہوتے۔ ہمارے مسائل وسائل سے بڑھ چکے ہیں اگر امسئلے پر ایمانداری سے غور کریں تو یہ بات 100%درست ثابت ہوتی ہے کہ ہمیشہ ہمارے حکمرانوں کے غلط فیصلوں نے ملک کو مختلف بحرانوں میں دھکیل کر عوام کو تنگی کا تاج نچا دیا ہے۔ سابقہ دور حکومت میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا وجود منظر عام پر آیا تھا جس سے حکومت عوام کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ یہ کمیٹیاں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو اعتدال پر لائیں گی مگر دوسری طرف بروکر مافیا کو کھلی چھٹی دے دی گئی تھی کمیشن ا یجنٹوں کا ایک مخصوص ٹولا اشیائے خوردہ نوش کو سٹاک کرنے کے طریقے وضع کرنے پر لگ گیا ۔ سرمایہ داروں نے مختلف اشیائے خوردہ نوش انوسٹمنٹ کر کے گودام کر لیں اور قیمتوں میں من مانے اضافے کرتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنی شروع کر دیں جب آٹا ، چینی، دالیں، گھی، خوردنی تیل مارکیٹ سے غائب ہو نے شروع ہوئے تو عوام نے مجبور ہو کر سرمایہ داروں کی جیبیں بھرتے ہوئے دوگنی قیمت ادا کی ۔ ایک تنخواہ دار آدمی کا ماہانہ بجٹ متاثر ہوا تو اس نے آمدنی کے دیگر ذرائع ڈھونڈنے شروع کر دیئے۔ انہی ملکی حالات نے ایک ملازمہ پیشہ فرد کو کرپشن پر مجبور کر دیا جب کرپشن عام ہونی شروع ہوئی تو اس کو محفوظ کرنے کے طریقے بنائے جانے لگے۔ اسی بروکر مافیا نے بطور ٹاؤٹ عوام اور محکموں کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہوئے ایک منظم نیٹ ورک تشکیل دے دیا آج ہر محکمے میں کرپشن کا بازار گرم ہے۔ عوام کے جائز کام بھی مٹھی گرم کئے بغیر نہیں ہو سکتے۔ موجودہ جمہوری حکومت نے جب اقتدار کا قلمدان سنبھالا تو عوام ایک بھر پھر پر امید نظر آنے لگی کہ عوامی حکومت ان کی امنگوں کو پورا کر ے گی اور مایوسی تاریکی میں روشن چراغ ثابت ہو گی۔ ملک میں بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ نے ا نڈسٹری زون کو بری طرح متاثر کیا جب انڈسٹریز پر مین پاور کے اخراجات کے علاوہ پروڈکشن میں کمی آہی تو ایک بار پھر عوام کو سولی پرلٹکا دیا گیا۔ انڈسٹریز کے نقصانات عوام کے ناتواں کندھوں پر آگئے۔ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے عوام بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ ، پیٹرول گیس کی قیمتوں کے اضافے نے عوام کی رہی سہی کسر بھی ختم کر دی ہے۔ اب صورتحال ایسی ہے کہ عوام ایک بار پھر کیسی مسیحا کا انتظار کر رہی ہے جو ان کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ انہیں ریلیف دینے کا وعدہ پورا کر سکے۔ موجودہ حکومت نے کسی حد تک عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن نتائج پھر بھی منفی ہیں۔ہماری موجودہ جمہوری حکومت کو چاہیے کہ وہ اشیاء خوردہ نوش کی قیمتوں کو اعتدال پر لائے تاکہ بھوک و افلاس کی سوچوں پر مسلط نہ ہوسکے اگر ملک میں امن و امان دیکھنا چاہتے ہیں تو ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی اپنانا ہو گی ۔ عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے ہونگے انہیں بیرون ملک ملازمتیں دلوا کر ان بحرانوں سے نکالنا پڑے گا ۔ موجودہ جمہوری حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی بنیادی سہولتیں روٹی، کپڑا اور مکان پوری کر ے تاکہ پاکستانی عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں اور اس طرح پاکستان کی معشیت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے اور پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونے کے قابل ہو جائے گا۔
ر دی ہے یہ روز بروز بڑھتے ہوئے معاشرتی جرائم اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں ملک کا طبقہ فکریہ سوچ رہا ہے کہ جس معاشر ے کی روایات تبدیل کرنی ہوں اس معاشرے میں بھوک کو رائج کر دیاجائے بھوک و افلاس ہمیشہ سوچوں کا رخ موڑتی ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی سوچوں کو کرپشن ، فراڈ اور دیگر جرائم کی طرف موڑ دیا ہے ۔پچھلے 65سالوں کا تجزیہ کیاجائے تو اندازہ ہو گاکہ سابقہ جنرل پرویز مشرف حکومت سے لیکر آج تک کے چند برسوں میں فراڈ ، دھوکہ دہی ، راہ زنی ، ڈکیتی کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عام آدمی کی سوچ میں کتنی تبدیلی آئی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ایک آدمی کی کمائی پر پورا گھرانہ پل رہا تھا مگر آج گھر کے سب افراد کمار رہے ہیں لیکن اخراجات پورے تک نہیں ہوتے۔ ہمارے مسائل وسائل سے بڑھ چکے ہیں اگر امسئلے پر ایمانداری سے غور کریں تو یہ بات 100%درست ثابت ہوتی ہے کہ ہمیشہ ہمارے حکمرانوں کے غلط فیصلوں نے ملک کو مختلف بحرانوں میں دھکیل کر عوام کو تنگی کا تاج نچا دیا ہے۔ سابقہ دور حکومت میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا وجود منظر عام پر آیا تھا جس سے حکومت عوام کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ یہ کمیٹیاں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو اعتدال پر لائیں گی مگر دوسری طرف بروکر مافیا کو کھلی چھٹی دے دی گئی تھی کمیشن ا یجنٹوں کا ایک مخصوص ٹولا اشیائے خوردہ نوش کو سٹاک کرنے کے طریقے وضع کرنے پر لگ گیا ۔ سرمایہ داروں نے مختلف اشیائے خوردہ نوش انوسٹمنٹ کر کے گودام کر لیں اور قیمتوں میں من مانے اضافے کرتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنی شروع کر دیں جب آٹا ، چینی، دالیں، گھی، خوردنی تیل مارکیٹ سے غائب ہو نے شروع ہوئے تو عوام نے مجبور ہو کر سرمایہ داروں کی جیبیں بھرتے ہوئے دوگنی قیمت ادا کی ۔ ایک تنخواہ دار آدمی کا ماہانہ بجٹ متاثر ہوا تو اس نے آمدنی کے دیگر ذرائع ڈھونڈنے شروع کر دیئے۔ انہی ملکی حالات نے ایک ملازمہ پیشہ فرد کو کرپشن پر مجبور کر دیا جب کرپشن عام ہونی شروع ہوئی تو اس کو محفوظ کرنے کے طریقے بنائے جانے لگے۔ اسی بروکر مافیا نے بطور ٹاؤٹ عوام اور محکموں کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہوئے ایک منظم نیٹ ورک تشکیل دے دیا آج ہر محکمے میں کرپشن کا بازار گرم ہے۔ عوام کے جائز کام بھی مٹھی گرم کئے بغیر نہیں ہو سکتے۔ موجودہ جمہوری حکومت نے جب اقتدار کا قلمدان سنبھالا تو عوام ایک بھر پھر پر امید نظر آنے لگی کہ عوامی حکومت ان کی امنگوں کو پورا کر ے گی اور مایوسی تاریکی میں روشن چراغ ثابت ہو گی۔ ملک میں بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ نے ا نڈسٹری زون کو بری طرح متاثر کیا جب انڈسٹریز پر مین پاور کے اخراجات کے علاوہ پروڈکشن میں کمی آہی تو ایک بار پھر عوام کو سولی پرلٹکا دیا گیا۔ انڈسٹریز کے نقصانات عوام کے ناتواں کندھوں پر آگئے۔ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے عوام بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ ، پیٹرول گیس کی قیمتوں کے اضافے نے عوام کی رہی سہی کسر بھی ختم کر دی ہے۔ اب صورتحال ایسی ہے کہ عوام ایک بار پھر کیسی مسیحا کا انتظار کر رہی ہے جو ان کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ انہیں ریلیف دینے کا وعدہ پورا کر سکے۔ موجودہ حکومت نے کسی حد تک عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن نتائج پھر بھی منفی ہیں۔ہماری موجودہ جمہوری حکومت کو چاہیے کہ وہ اشیاء خوردہ نوش کی قیمتوں کو اعتدال پر لائے تاکہ بھوک و افلاس کی سوچوں پر مسلط نہ ہوسکے اگر ملک میں امن و امان دیکھنا چاہتے ہیں تو ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی اپنانا ہو گی ۔ عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے ہونگے انہیں بیرون ملک ملازمتیں دلوا کر ان بحرانوں سے نکالنا پڑے گا ۔ موجودہ جمہوری حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی بنیادی سہولتیں روٹی، کپڑا اور مکان پوری کر ے تاکہ پاکستانی عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں اور اس طرح پاکستان کی معشیت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے اور پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونے کے قابل ہو جائے گا۔